تفسير ابن كثير



سورۃ يوسف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ[56] وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ[57]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اسی طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف کو اقتدار عطا فرمایا، اس میں سے جہاں چاہتا جگہ پکڑتا تھا۔ہماپنی رحمت جس کو چاہتے ہیں پہنچا دیتے ہیں اور ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ [56] اور یقینا آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے کہیں بہتر ہے جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔ [57]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا۔ کہ وه جہاں کہیں چاہے رہے سہے، ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں۔ ہم نیکو کاروں کا ﺛواب ضائع نہیں کرتے [56] یقیناً ایمان داروں اور پرہیز گاروں کا اخروی اجر بہت ہی بہتر ہے [57]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی اور وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے۔ ہم اپنی رحمت جس پر چاہتے ہیں کرتے ہیں اور نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے [56] اور جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے رہے ان کے لیے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے [57]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 56، 57،

باب

زمین مصر میں یوں یوسف علیہ السلام کی ترقی ہوئی۔ اب ان کے اختیار میں تھا کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں۔ جہاں چاہیں مکانات تعمیر کریں۔ یا اس تنہائی اور قید کو دیکھئیے یا اب اس اختیار اور آزادی کو دیکھئیے۔ سچ ہے رب جسے چاہے اپنی رحمت کا جتنا حصہ چاہے دے۔ صابروں کا پھل لا کر ہی رہتا ہے۔ بھائیوں کا دکھ سہا، اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لیے عزیز مصر کی عورت سے بگاڑ لی اور قید خانے کی مصیبتیں برداشت کیں۔ پس رحمت الٰہی کا ہاتھ بڑھا اور صبر کا اجر ملا۔ نیک کاروں کی نیکیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں۔ پھر ایسے باایمان تقویٰ والے آخرت میں بڑے درجے اور اعلیٰ ثواب پاتے ہیں۔ یہاں یہ ملا، وہاں کے ملنے کی تو کچھ نہ پوچھئے۔ سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بھی قرآن میں آیا ہے کہ «هَـٰذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ» [ 38-ص: 39، 40 ] ‏‏‏‏ یہ دنیا کی دولت وسلطنت ہم نے تجھے اپنے احسان سے دی ہے اور قیامت کے دن بھی تیرے لیے ہمارے ہاں اچھی مہمانی ہے۔ الغرض شاہ مصر ریان بن ولید نے سلطنت مصر کی وزارت آپ علیہ السلام کو دی، پہلے اسی عہدے پر اس عورت کا خاوند تھا۔ جس نے آپ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا، اسی نے آپ کو خرید لیا تھا۔ آخر شاہ مصر آپ کے ہاتھ پر ایمان لایا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپ کے خریدنے والے کا نام اطفیر تھا۔ یہ انہی دنوں میں انتقال کر گیا۔
4027

اس کے بعد باشاہ نے اس کی زوجہ راعیل سے یوسف علیہ السلام کا نکاح کر دیا۔ جب آپ ان سے ملے تو فرمایا کہو کیا یہ تمہارے اس ارادے سے بہتر نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے صدیق مجھے ملامت نہ کیجیئے آپ علیہ السلام کو معلوم ہے کہ میں حسن وخوبصورتی والی دھن دولت والی عورت تھی میرے خاوند مردمی سے محروم تھے وہ مجھ سے مل ہی نہیں سکتے تھے۔ ادھر آپ کو قدرت نے جس فیاضی سے دولت حسن کے ساتھ مالا مال کیا ہے وہ بھی ظاہر ہے۔ پس مجھے اب ملامت نہ کیجئے۔ کہتے ہیں کہ واقعی یوسف علیہ السلام نے انہیں کنواری پایا۔ پھر ان کے بطن سے آپ کو دو لڑکے ہوئے افراثیم اور میضا۔ افراثیم کے ہاں نون پیدا ہوئے جو یوشع کے والد ہیں اور رحمت نامی صاحبزادی ہوئی جو ایوب علیہ السلام کی بیوی ہیں۔ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جو یوسف علیہ السلام کی بیوی ہیں۔ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جب یوسف علیہ السلام کی سواری نکلی تو بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ الحمداللہ اللہ کی شان کے قربان جس نے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے غلاموں کو بادشاہی پر پہنچایا اور اپنی نافرمانی کی وجہ سے بادشاہوں کو غلامی پر لا اتارا۔
4028



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.